جوڑوں کا پرانا درد(Osteoarthritis)
عرف عام میں انگریزی زبان میں جوڑوں کے پرانے درد کے لیےOsteoarthritis کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ انگریزی کا یہ لفظ تین یونانی الفاظ Osteonیعنی ہڈی، Arthronیعنی جوڑ اور Itis یعنی ورم، سوجن یا درد، کا مجموعہ ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اوسٹیوآرتھرائیٹس، جوڑوں کے مرض کی سب سے عام بیماری ہے جس کا شکار عمومی طور پر وہ افراد ہوتے ہیں جو عمررسیدگی کی طرف گامزن ہوتے ہیں یعنی جن کی عمرچالیس سے ساٹھ برس کے درمیان ہوتی ہے لیکن یہ بیماری عمر کے کسی بھی حصے میں لاحق ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس کی وجوہ عمررسیدگی سے پہلے ہی موجود ہوں۔ یہ مرض دنیا کے ہر علاقے کے مکینوں کو لاحق ہو سکتا ہے اور اس میں صنفی طور پر کوئی تمیز نہیں یعنی یہ مرض مردوزن کی تخصیص کے بغیر کسی بھی فرد کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ عمومی طور پر یہ مرض اس وقت لاحق ہوتا ہے جب انسانی بدن کی ہڈیوں کے سِروں(یعنی bone ends) پر موجود cartilages(یعنی غصاریف) میں ٹوٹ پھوٹ ؍تڑخ،پیداہونے کا آغاز ہو جاتا ہے جس کے باعث cartiligasکی سطحوں میں ناہمواری واقع ہو جاتی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہOsteoarthritisیعنی جوڑوں کے پرانے درد، دو طرح سے ،انسانی بدن پر حملہ کرتے ہیں جن میں ایک کو ابتدائی اوسٹیوآرتھرائیٹس یعنی Primary Osteoarthritis اور دوسرے کو ثانوی اوسٹیوآرتھرائیٹس یعنی Secondary Osteoarthritis
کہا جاتا ہے۔ اس مرض کی ابتدائی شکل، عام طور پر انگلیوں کے آخری درمیانی جوڑ، ہتھیلی اور انگلیوں کی ہڈیوں، کولہے، گھٹنے، تلوے اور پاؤں کے انگوٹھے کے جوڑ کے علاوہ گردن اور کمر کے مہروں کو اپنا نشانہ بناتی ہے جبکہ اس مرض کی ثانوی شکل جسے انگریزی میں Secondaryبھی کہتے ہیں، جوڑ کو کسی بھی قسم کے نقصان یا چوٹ کے باعث پیدا ہوتی ہے۔
جوڑوں کے درد یا ہڈیوں میں کمزوری اور ٹوٹ پھوٹ کی ایک وجہ جنیاتی ہوتی ہے یعنی یہ مرض ایک خاندان کے افراد میں مسلسل اور مستقل پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ افراد جن میں مٹاپا زیادہ ہوتا ہے اور ان کے کولہے اور گھٹنے، بدن کا وزن نہیں سہار سکتے اور یوں جوڑ اور ہڈیاں کمزوری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔اس مرض کی ایک اور وجہ کسی بھی قسم کی چوٹ بھی ہوسکتی ہے جو کسی بھی جوڑ کو درد میں مبتلا کرنے کے علاوہ اسے کمزور بھی کر سکتی ہے۔
اس مرض کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک بتدریج لاحق ہونے والی بیماری ہے جس کی علامات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید اور بدترین ہوتی جاتی ہیں اور عام طور پر اس مرض کا کوئی شافی علاج میسر نہیں ہوتا اگر احتیاط نہ کی جائے۔ بہرحال، معالجین کی رائے کے مطابق دستیاب طریقوں کے ذریعے علاج معالجہ مثبت نتائج کا حامل ہو سکتاہے جس کے ذریعے ہڈیوں میں کمزوری اور ٹوٹ پھوٹ کے باعث پیدا ہونے والی درد اور سوجن کو کم کیا جا سکتا ہے، نیز اگر مریض مسلسل علاج جاری رکھے تو وہ جلد ہی فعال زندگی گزار سکتا ہے۔ عام طور پر یہ مرض بدن کے ہر حصے کو اپنا نشانہ بنا سکتا ہے لیکن خاص طور پر ہاتھ، کولہے، گھٹنے، کمر کا نچلاحصہ اور گردن، اس مرض سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ مزیدبرآں، یہ مرض تین خطرناک خصوصیا ت کا بھی حامل ہے کہ جوڑوں کے کناروں کے اردگرد ہڈیوں کی نشوونمازیادہ ہو جاتی ہے،cartilage تباہ ہو جاتا ہے جو جوڑ کا ایک ایسا حصہ ہوتا ہے،جیسا کہ اوپربھی بیان کیا گیا ہے، جو ہڈیوں کے کناروں کو سہارا دیتا ہے اور جوڑوں کی آسان نقل وحرکت کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مرض کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ جوڑوں کوچکنا بنانے والی جھلی میں سوزش(Synovitis)پید ا ہوجاتی ہے۔
صنفی لحاظ سے جوڑوں کے درد اور ہڈیوں کی کمزوری اور ٹوٹ پھوٹ ، اوسٹیوآرتھرائیٹس ، کا زیادہ شکار، مردوں سے زیادہ خواتین ہوتی ہیں خصوصاً وہ خواتین جن کی عمر پچاس سے زائد برس ہو جاتی ہے۔ عام طور پر یہ مرض ان افراد کو بھی لاحق ہو جاتا ہے جن کی عمرچالیس سے بھی زائد ہوتی ہے لیکن نوجوان لوگ اس مرض کا شکار اس وقت ہوتے ہیں جب انہیں کسی چوٹ یا جوڑوں کے کسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ مرض بڑھاپے کی نشانی ہے لیکن اس میں کوئی سچائی نہیں کیونکہ ایسے لوگ بھی د یکھے گئے ہیں جو نوے برس کی عمر میں بھی اس مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔
یہ ایک ایسا مرض ہے جس کی خاص اور نمایاں علامات میں درد، متاثرہ جوڑو ں کی نقل وحرکت میں مشکل اور پٹھوں اور جوڑوں میں ورم اور سوزش شامل ہے جب خاص طور پر صبح بیدار ہونے پر محسوس ہوتی ہے لیکن اس وقت تیس منٹ کے اندر دور ہو جاتی ہے جب متاثرہ شخص کچھ پیدل چلتا ہے۔بعض اوقات اس بیماری سے متاثر افراد میں اس مرض کی کوئی بھی علامت ظاہر نہیں ہوتی اور اکثر اوقات اس مرض کی علامات بتدریج ظاہر ہوتی ہیں۔ اس مرض کی نمایاں علامات کے علاوہ کچھ دیگر علامات بھی ہیں جن میں جوڑوں کا گرم ہو جانا، پٹھوں کی کمزوری، متاثرہ جوڑ میں کمزوری، متاثرہ جوڑ کی محدودنقل وحرکت شامل ہیں۔ اوسٹیوآرتھرائیٹس کا مرض جب گھٹنوں پر حملہ کرتا ہے تو عام طور پر دونوں گھٹنے متاثر ہوتے ہیں اور مریض کو پیدل چلنے میں درد محسوس ہوتی ہے خاص طور پر جب وہ سیڑھیاں چڑھتا یا اترتا ہے۔ کولہے کے جوڑ کی نقل وحرکت کے لیے جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے،اس کی کمی مسائل پیدا کرتی ہے اور یوں چوتڑوں، ٹخنوں اور رانوں میں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ہاتھوں میں اس مرض کے حملے کے باعث ہاتھ کے انگوٹھے کا نچلا حصہ متاثر ہو سکتا ہے جبکہ انگلیوں کے بالائی جوڑ بھی ہل سکتے ہیں اور پھر انگلیوں کے درمیانی جوڑ بھی نقصان کا شکار ہوسکتے ہیں۔
وہ لوگ جو اس مرض کاشکارہونے کے باعث جوڑوں کی سوزش، سختی اور سوجن کا ایک دو ہفتے سے زیادہ کا شکار رہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ اپنے معالج سے رابطہ کریں۔اگر اس مرض میں مبتلا مریض، متلی، قبض، غنودگی، معدہ کی خرابی یا اسہال کے مسائل کا شکار ہوں تو پھر انہیں فوری طور پر معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اس مرض کی علامات کے ذریعے اس کی تشخیص آسانی سے ہو سکتی ہے لیکن بعض اوقات مریض کی طبی تاریخ، طبی معاینے، ایکس رے یا اسی قسم کے دیگر معاینوں کے ذریعے اس مرض کی تشخیص کی جاتی ہے اور اس کے علاج لیے اکثراوقات معالجین ایک سے زیادہ طریقے ، انفرادی نوعیت،کے اعتبار سے استعمال کرتے ہیں جن کے لیے مریض کی جملہ ضروریات، طرززندگی اور صحت کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ نیز اوسٹیوآرتھرائیٹس کے علاج کے چار بنیادی مقاصد ہوتے ہیں: جوڑوں کی کارکردگی میں اضافہ، بدن کا متوازن وزن، درد پر قابو، صحت مندطرززندگی کا حصول،وغیرہ۔مزیدبرآں اس مرض کے علاج کے لیے سب سے بنیادی طریقہ علاج ورزش بتائی جاتی ہے، اس کے بعد وزن میں کمی ہے، جوڑوں کی حفاظت اور دیکھ بھال، ادویہ کا استعمال، دیگرمتبادل طریقوں کا استعمال اور جراحت وغیرہ۔ اوسٹیوآرتھرائیٹس جیسے مرض سے مسلسل حفاظت اور دیکھ بھال کے سلسلے میں مریض خود بھی ایسے طریقے استعمال کر سکتا ہے جن کے ذریعے اسے اپنے مرض کو دور کرنے کے متعلق معلومات حاصل ہوں، مریض اپنے طور پر بھی معالجین کی ہدایت کے مطابق ورزش کا ایک باقاعدہ نظام مرتب اور اختیار کر سکتا ہے اور سب سے بڑھ کرمریض کی قوت ارادی ، اسے اس مرض پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے۔اس مرض کے علاج کے ضمن میں یہ بات قابل ذکرہے کہ اس حوالے سے طبی محققین مسلسل تحقیق میں مصروف ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ متاثرکن اور موثرطریقہ ہائے علاج دریافت کیے جائیں۔عام طور پر ایلوپیتھی میں اس مرض کے علاج کے لیے Acetaminophen ،Nonsteroidal anti-inflammatory drugs،Tramadol،Steroid shotsاور کچھ antidepressants مثلاً duloxetine، نامی ادویہ استعمال ہوتی ہیں جبکہ ہومیوپیتھی طریقہ علاج کے مطابقRhus toxicidendron، Rheumatoid , Bryonia alba,، Arnica Montana,، Calcaria fluoride،Calcaria carbonate،Pulsatilla nigra،Radium bromidاورKali carbonicumوغیرہ مستعمل ہیں اور پھر یونانی طریقہ علاج میں مندرجہ ذیل ادویہ استعمال ہوتی ہیں
: Boswellia، Turmeric، Ashwagandha، Ginger، Triphala، Guggulu اور Shatavari وغیرہ۔